– تحریر میں زہر ملانا

عبدالخالق ھمدرد میرے دوست ہیں اور صاحب علم انسان ہیں۔ اردو، عربی اور انگلش میں لکھتے اور ترجمے کرتے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ میں جب کچھ لکھتا ہوں تو اس تحریر کو دوبارہ پڑھ کر اس میں سے “زہر” نکال دیتا ہوں۔ انہوں نے مجھے بھی یہی مشورہ دیا کہ آپ بھی ایسا کیجئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں لکھ کر دوبارہ دیکھ لیتا ہوں، اور اگر تحریر بالکل مناسب، سنجیدہ اور بے ضرر بھی ہے، تو تھوڑا زہر ملا دیتا ہوں۔
تحریر میں زہر ملانے کا میرا مقصد تھا کہ قارئین کو چونکا سکوں، ان کے سوچنے کے انداز کو چیلنج کر سکوں، اور کچھ ایسی باتیں کہہ سکوں جو عام حالات میں لوگ سننا پسند نہ کریں۔ اس عمل کے نتیجے میں، میرے کالمز میں تلخی اور تیکھا پن ہوتا تھا جو بعض احباب کو پسند نہیں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے کالمز پر خوب گالیاں دیا کرتے تھے۔
لیکن بڑے عرصے بعد، میں نے برادرم ڈاکٹر عبدالخالق ھمدرد کے مشورہ پر دوبارہ غور کیا اور اپنی تحریروں میں زہر ملانے میں کمی کی۔ اس کے بڑے فوائد ہوئے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دشمنوں کی کمی ہوگئی، اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ تحریر میں زہر نہ ملانے سے لکھنے کی سنجیدگی اور وزن میں اضافہ ہوا، اور لوگ میرے خیالات کو زیادہ سنجیدگی سے لینے لگے۔
تحریر میں زہر ملانا ایک دلچسپ انتخاب ہے۔ یہ انتخاب انحصار کرتا ہے کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی بات فوراً سنی جائے اور اس پر ردعمل آئے، تو تھوڑا زہر ملانا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا مقصد ہے کہ آپ کے خیالات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور آپ کی باتوں کا دیرپا اثر ہو، تو زہر نہ ملانا زیادہ بہتر ہے۔
زندگی کے مختلف مراحل اور تجربات کے بعد، یہ سمجھ میں آیا کہ تحریر کی خوبصورتی اور اثر پذیری اس کی شائستگی اور دلکشی میں ہے۔ نرم و ملائم الفاظ اور معقول انداز بیان زیادہ دیرپا اور مؤثر ہوتے ہیں۔ عبدالخالق ھمدرد کے مشورہ نے میری تحریروں کو مزید معتبر اور قابل قبول بنانے میں اثر دکھایا۔
آخرکار، یہ ایک توازن کا معاملہ ہے۔ حالات کے مطابق کبھی کبھی تلخی بھی ضروری ہوتی ہے، لیکن اسے ایک حد میں رکھنا ہی بہتر ہے۔ تحریر میں زہر ملانے یا نہ ملانے کا فیصلہ آپ کی ترجیحات اور مقاصد پر منحصر ہے۔ اور یہی انتخاب آپ کی تحریر کی سمت اور قارئین کی ردعمل کو متعین کرتا ہے۔ سو کھبی زہر ملانے میں اور کھبی تحریر میں ملاپ شدہ زہر نکالنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔